مـیں نے اسی سال اپریل کے آغاز مـیں نسیم سید کو ایک مـیل کیـا تھا، پشواز غزل عنایت جس کے جواب مـیں انہوں نے اپنی محبت اور عنایت کے سبب یہ تحریرعنایت کی۔ مـیرا ماننا ہے کہ ایک اچھے اور سچے فنکار کے اندر خود کو دیکھتے رہنے کی ایک اذیت ناک صلاحیت ہوتی ہے، اور وہ جس حد تک بھی ہوسکے اس صلاحیت سے جان چرانے کی کوشش کرتا ہے۔ خیر مـیں نے انہیں لکھا تھا۔ ''نسیم سیدانی صاحبہ! آپ کے کلام کا انتخاب تو ہم نے کرلیـا ہے۔ اب رہی بات آپ کی تصویر کی تو مـیں چاہتا تھا ریختہ پر آپ کی وہ تصویر لگائی جائے جسے آپ چسپاں کروانا چاہیں۔ جہاں تک بات رہی آپ کے شرمندہ ہونے کی تو ہر اچھا شاعر کہیں نہ کہیں اپنی تخلیقی قوت کے سامنے کچھ ایسا شرمندہ ہے۔ ہم جتنا سوچتے ہیں اتنا کہہ ہی کہاں پاتا ہے اور ویسے بھی کہاں کہہ پاتے ہیں جیسے ہم کہنا چاہتے ہیں۔ آہ ظفر اقبال یـاد آگیـا دیکھیے۔ ظالم کہتا ہے ابھی اپنی مـیری سمجھ مـیں یہ نہیں آرہی مـیں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کررہا آپ کے کوائف اس لیے چاہتا ہوں کیوںکہ فیس بک سے آپ کے بارے مـیں معلومات ادھار نہیں لینا چاہتا بلکہ کیـا ہی اچھا ہو کہ آپ ریختہ کے لیے اپنے خاص اسلوب مـیں اپنی مختصر سی سوانح لکھ دیں۔ یہی کوئی پانچ چھ صفحات مـیں۔ مـیں اسے آپ کی پروفائل مـیں ویسے ہی لگوا دوں گا اور یہ بھی ظاہر کروائوں گا کہ یہ آپ کی اپنی تحریر ہے۔ اس مـیں سب لکھ دیجیے گا زندگی کو آپ نے کیسے گزارا اور زندگی نے آپ کو کیسے گزارا۔ اب رخصت چاہوں گا، مـیرے باس کو اردو نہیں آتی مگر وقت کے اسراف پر ان کی گہری نظر ہے۔'' جواب مـیں تقریبا ایک یـا دو ہفتے بعد ان کی جو تحریر مجھے ملی وہ ریختہ کے پروفائل سیکشن مـیں توشامل ہے ہی۔ مـیں یہاں اسے الگ سے آپ لوگوں کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں۔ یہ سطریں نسیم سید کی زندگی اور ان کے گزران کو سمجھنے مـیں بڑٰ ی مدد دیتی ہیں۔شکریہ!
تصنیف حیدر
" تصنیف حیدر نے مجھے لکھا ۔ " سب لکھ دیجیے گا زندگی کو آپ نے کیسے گزارا اور زندگی نے آپ کو کیسے گزارا۔" مـیں نے وعدہ تو کر لیـا مگر کئی دن گزر گئے زندگی کے ان اوراق کو ڈھو نڈنے مـیں جو شا ید کہیں کھو گئے یـا شا ید مـیں نے پھا ڑ دئے ہوں ۔ " سب لکھ دیجئے " مگر کیسے ؟ با ت یہ ہے کہ ہم زندگی مـیں پو رے کے پو رے اپنے ہا تھ لگتے ہی کب ہیں ؟ اور پورا کا پورا خودکو یـا د بھی کب رہ جا تے ہیں ؟ مگر کو شش کر تی ہوں جہا ں جہا ں سے خو د کو یـا د ہوں " سب سا منے لا ئے دیتے ہیں " یہ ایک خا صہ خو بصورت تین منزلہ گھر ہے خیر پو رکے چھو ٹے سے محلے لقمان مـیں ۔( خیر پور سندھ پاتان کا ایک چھو ٹا سے شہر ہے ) الہ آ باد سے مـیرے والدین بھی یہاں آگئے تھے رلتے رلا تے ۔ والد سید تھے اور کئی بارھم " نجیب الطر فین " ہیں کا فخریہ حصا ر ہما رے گرد کھینچتے نظر آ تے تھے ایک شجرہ سینے سے لگا ئے لگا ئے پھر تے جس مـیں شا ید کوئی تفصیل تھی انکے نجیب الطر فیں ہو نے کی اور یہ کہ طر ح اکبر الہ آبادی ہمارے رشتہ دار ہیں ۔ مگر ہم چھ بہن بھا ئیوں مـیں سےی کو کبھی کبھی اس تفصیل مـیں جا نے کا شو ق نہیں ہوا گو وہ شجرہ اب بھی مـیرے بھا ئی کے پا سی الما ری مـیں دھرا ہے مگر اس کو دیکھنے کا فا ئدہ ؟ ہم بہت چھو ٹے چھو ٹے تھے تب ہی اچا نک اماں نے ایک دن اپنی مٹھی کھو ل کے خود کو اپنے ہا تھو ں سے جھا ڑ دیـا ۔
ہمارے اس تین منزلہ گھر کے دا لا ن مـیں مـیری ماں کی لحد ہے اور اس لحد مـیں مـیرا اور مـیرے با قی پا نچ بہن بھا ئیوں کا بچپن دفن ہے ۔ اس گھر کے کمروں مـیں دالا ن مـیں صحن مـیں اوپر کی منزلوں مـیں ان کے آ خری الفا ظ " مـیرے بچے " اور " بیٹا بہت پڑھنا " ہر طر ف گو نجتے تھےاور بہت سالو ں تک مـیں کو ئی آ واز نہیں سن پا ئی سو ا ئے اس آ واز کے ۔ ہم سب بہن بھا ئی ایک سا تھ تھے مگر ہم ایک دو سرے سے بچھڑ گئے تھے اپنی اپنی تلا ش مـیں لگ کے ۔تب مـیں شا ید چھ سا ل کی تھی مگر ما ں کے آ خری الفا ظ کا مطلب نہ سمجھتے ہو ئے بھی بہت کچھ سمجھ مـیں آ گیـا مـیرے اور بہت بچپنے مـیں ہی زندگی نے بہت کچھ سمجھا اور سکھا دیـا مجھے اسکی سمجھا ئی ہو ئی یہ با ت تو جیسے ازبر ہو گئی کہ دکھ درد اور غم وہ کڑوی گو لیـاں ہیں جنہیں چبا نا نہیں چا ہئے بلکہ ایک گھو نٹ مـیں نگل لینا چا ہئے ۔مـیں ان کڑ وی گو لیوں کو نگلتی اور یہ مـیرے اندر بر سہا برس کی زہریلی روایـا ت کے بدن مـیں زہر اتا رتی گئیں اپنا اور مجھ مـیں تر یـا ق کا کام کر تی گئیں ا ن کڑ وی گو لیو ں کے بیج سے مـیں اپنے اندر اندر پھو ٹتی رہی شا ید ،ی نئے پو دے کی طرح جس کا مجھے بہت بعد مـیں اندا زہ ہوا ۔ مـیری بڑی بہن جتنی ڈرپو ک اور خا مو ش تھی مـیں اتنی ہی نڈر اور بے باک ۔ لہذا جب سا تو ین کلا س مـیں تھی تو اس اسکو ل مـیں جس کی ہیڈ مسٹریس بھی بر قع اور نقاب مـیں ڈھکی چھپی رہتی تھی جب پر دے کے مو ضو ع پر مبا حثہ ہوا تو پر دے کے خلا ف تقریر کی اور مزے کی بات یہ کہ پہلا انعام بھی لیـا ۔ یہ ایک چھو ٹا سا کپ تھا جو مجھے زندگی نے عطا کیـا تھا اپنے سا منے اپنا اقرار کر نے کا ۔والد سید تھے سو ہم سید قرار پا ئے اور مـیں نسیم سید ہو گئی ۔ والد ویسے ہی تھے جیسے اس دور کے والد ہوا کر تے تھے " کھلا ئو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگا ہ " انکے پا س گو ہمـیں سونے کا نوالہ کھلا نے کو نہیں تھا مگر شیر کی نگا ہ تھی ۔ سو یہ نگا ہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے سب کو قوانین کا پا بند رکھتی تھی ۔ مـیرے اندر سوالوں کا ہمـیشہ انبار رہا ۔ اور یہ سوالا ت اکثر ان کے قوانین سے ٹکر ا تے ، جب ٹکر ا تے تو سخت جھا ڑ جھپا ڑ ادھیڑ پچھا ڑ ہو تی مـیری مگر یہ سب کچھ مجھے اوپر سے خا موش اور اندر سے پر شور بنا که تا رہا ۔ غرض سوال کر نے کی عا دت کے سبب اسکو ل اور گھر دونوں جگہ ، خو ب خو ب صلواتیں پڑیں ۔سزا بھگتی ٹھکا ئی ہو ئی ۔یہ سب کچھ اب بھی ہو که تا ہےی اور اندا ز سے مگر اپنی نظموں مـیں جو جی کرتا ہے بکتی ہوں ۔ لہذا " بدن کی اپنی شریعتیں ہیں " جیسی نظمـیں لکھیں تو کئی بڑے شا عروں نے اشا روں اشا روں مـیں اور کھل کے سمجھا یـا کہ عو رت کو کیسی شا عری سے پر ہیز کرنا چا ہئے اور کیسی شا عری کر نی چا ہئے ۔ اس جملے کو معتر ضہ سمجھیں۔ تو با ت تھی نو عمری کے زما نے کی اپنے چھا نے پھٹکے جا نے کی ،کو ٹے پیسے جا نے کی ۔ سا تو یں کلا س مـیں دو اہم واقعا ت ہو ئے ایک پر دہ کے خلا ف مـیری جیت اور دوسرا دلچسپ وا قعہ یہ ہوا کہ امتحان مـیں جملے بنا نے کو آ تے تھے اس زمانے مـیں ۔ جیسے چو ری اور سینہ زوری ، بکرے کی ماں کب تک خیر منا ئےوغیرہ وغیرہ ۔ مـیں نے سب کو شعر بنا ڈا لا بجا ئے جملے کے ۔ ایک فضول سا شعرکیو نکہ اس پر بہت مار پڑی تھی اس لئے شا ید اب بھی یـا دہے ۔ ٹیٹوا دبا نا کا جملہ بنا نا تھا ۔ مـیں نے لکھامـیں سر دبا نا چا ہتا تھا آ پ کا حضور بھو لے سے مـیں نے ٹیٹوے کو ہی دبا دیـا مـیری اردو کی استا د کو بہت غصہ آ یـا ۔ اس نے مـیرا امتحان کا پیپر مـیرے منہ پر ما را ۔ اور خوب ڈانٹا پھر ایک گھنٹہ کے لئے کلا س کے کو نے مـیں کھڑا کردیـا ۔اس کو نے مـیں کھڑے ہو کے مـیں نے اس ایک گھنٹہ کو بہت سر شا ر ی مـیں گزارا کیونکہ مجھے بڑا مزا آ رہا تھا یہ سو چ کے کہ اتنی جلدی جلدی مـیں نے شعر گڑھ ڈا لے جبکہ اس سے پہلے ایک شعر بھی نہیں کہا تھا ۔ اس دن اس کو نے مـیں کھڑے کھڑے مـیں نے اپنے لئے سزا مـیں سے جزا کا فا رمولا دریـا فت کر لیـا ۔ والد نے حسب دستور چادن کے اندر شا دی کر لی تھی ۔ دوسری ماں بھی با کل ویسی تھیں جیسے انہیں ہو نا چا ہئے تھا ۔ بڑی بہن با رہ سال کی ہو ئی تو اس کی پینتاسا ل کے مرد سے شا دی کر دی گئی ۔ تو انکی شا دی شدہ زندگی ویسی تھی جیسی اسے ہو نا چا ہئے تھا ۔ بڑے بھا ئی پا ئیلٹ کی ٹرینگ کے لئے انگلینڈ بھیج دئے گئے ۔والد نے ہمـیں دوسری والدہ کے سا تھ بہت انصا ف کا ا حسا س دیـا ۔ اپنے طور پر محبت بھی دی ۔تحفظ بھی اور تعلیم کے لئے آ گے بڑھتے جا نے کی اپنی بسا ط بھر پو ری مدد بھی ۔مگر انکے اور مـیرے بیچ مـیری ماں کی لحد کا فا صلہ تھا اور یہ فا صلہ لق و دق تھا شا ید جو مـیں چا ہتے ہو ئے بھی ختم نہیں کر پا ئی ۔ ہم چا ر بہن بھا ئی اب بھی ایک سا تھ تھے مگر ایک دوسرے سے بے خبر اپنی اپنی تلا ش مـیں گم تھے ۔ مـیں کلا س مـیں فسٹ اس لئے آ تی تھی کہ جس لڑکی کو ہرا کے مـیں نے سیکنڈ پو زیشن پر کر دیـا تھا وہ بہت امـیر با پ کی بیٹی تھی اور مـیری کلا س ٹیچرز اس کے نا ز نخرے جو تے سب کچھ اٹھا نے کو تیـا ر رہتی تھیں ۔وہ نمبر دینے مـیں اکثر مـیرے سا تھ بے ایما نی کر تیں جب وہ لڑ کی مقا بلے پر ہو تی ۔ مـیں نے ٹھا ن لیـا کہ مجھے فسٹ آ نا ، کھیل کے مـیدان مـیں اسے شکست دینا ہے ۔ جب ہیڈ گر ل کا الیکشن ہو ا تو اسے ہرا کے مجھے لگا مـیں نے اسے نہیں "بے ایما نی " کو ہرا یـا ہے مجھے مـیری ٹیچر ز اور والد کی جا نب سے جن کتا بوں کو نہ پڑھنے کی که تا کید کی گئی مـیں نے وہ سا ری کتا بیں ڈھو نڈ ڈھو نڈ کے پڑھیں ۔منٹو کے افسا نے ایک کزن کی خو شا مد کر کے منگو ائے ۔ اس پر ہسٹری کی کتا ب کا ٹا ئیٹل چڑھا کے اپنے بستے مـیں چھپا دیـا ۔ مگر والد کو شا ید پینسل کی ضرورت ہو ئی بستہ چیک کیـا اور منٹو ہا تھ آ گئے ۔ انہوں نے وہ کتا ب چو لھے مـیں ڈال دی ۔ مجھے آ گ مـیں جلتا منٹو گلزار دکھا ئ دیـا ۔اور پھر اس آ گ نے بڑی روشنی دکھا ئی مجھے زندگی بھر ۔ مـیں نے بتا یـا نا کہ سزا مـیں جزا کا فا رمولا تلا ش چکی تھی مـیں۔ پہلے شعری مجمو عے "آ دھی گو اہی " کی پہلی نظم "تعا رف " یـا د آ گئی ( ایک ہی نثری نظم ہے مـیرے پا س ) سنا تی چلو ں با ت آ گے بڑھا نے سے پہلے ۔ تعا رف بچپن مـیں اس چڑیـا کی کہا نی ہم سب نے سنی ہے جو زندہ رہنے کے گر سے واقف تھی سو ، جب اسے آزا د فضا ئوں سے گرفتا ر کر کے پنجرے مـیں ڈالا گیـا تو وہ گا رہی تھی " آ ہا !! مـیں نے اتنی تیلیوں والا ، کیـا محفو ظ سا اک گھر پا یـا " چھری تلے آ ئی تب بھی گا تی رہی" آ ہا !! مـیں نے لال کپڑے پہنے ۔ سب نے کیسا مجھے سجا یـا " اور جب کڑا ہی مـیں تلی گئی تو وہ گا رہی تھی " آہا !! آ گ مـیں جل کے سو نا کندن مـیں ڈھل آ یـا " شا ید مـیں وہی چڑیـا ہوں لیجئے ابھی تک مـیں نے خو د کو سمـیٹا ہی نہیں اور تصنیف حیدر کی که تا کید ہے کہ پا نچ چھ صفحا ت ہوں تو مجھے اب ایک ورق مـیں سمـیٹنا ہے خو د کو ۔ ویسے ایک ورق سے ذیـا دہ کچھ ہے بھی کہاں مـیرے پا س اپنے تعا رف مـیں ۔فا سٹ فارورڈ کر تی ہوں با قی وقت کو ۔ دسویں کے بعد کیونکہ خیر پور مـیں کا لج نہیں تھا لہذا کراچی بھیج دی گئی اس ضد پر کہ مجھے آ گے پڑھنا ہے ۔کراچی کا لج کا زمانہ ۔۔کیـا اچھے دن تھے ۔ شا عری نے پھر ایکدن ایک نظم کی صورت مـیں مخا طب کیـا ۔اور پھر اس سے مسلسل رابطہ رہا ۔مـیں اپنے کا لج کے مـیگزین " فضا " کی ایڈیٹر تھی ، یو نین کی صدر تھی ،ڈرامہ سو سا ئٹی کی صدر تھی ۔ ڈیبیٹ ، مشا عرے سب مـیں شا مل ۔ غرض اس مصروفیت مـیں عجب فر صت تھی عجب آرام تھا عجب خو شیـاں تھیں حیدر آ با د ویمن کا لج مـیں مشا عرہ تھا ۔ پو رے پاتان سے شا عرات اس مشا عرے مـیں شر کت کر رہی تھیں ۔ حمایت علی شا عر اور (شاید ) عبیداللہ علیم ججز مـیں تھے ۔اس مشا عرے مـیں جب مـیرے نام کا اعلا ن ہوا پہلے انعام کے لئے تو مـیں بہت دیر تک سمجھتی رہی کہ غلطی سے مـیرے نام کا اعلا ن ہوا ہے ۔ ( حما یت علی شا عر آ ج بھی مـیرے اس ہونق پن پر ہنستے ہیں ) یو نیورسٹی پہنچتے تک شا عری سے مـیری اتنی گا ڑھی چھنے لگی تھی کہ جب تنقیدی نشستیں ہو تیں تو وہ لڑ کے جو خا ص کر ہو ٹنگ کر نے ہی آتے تھے مجھے اکثر بخش دیتے تھے ۔ ایک نطم لکھی تھی مـیں نے "جمـیلہ بو پا شا " ہمارے ہیڈ آ ف ڈیپا رٹمنٹ اور تما م پر وفیسر ڈیپا رٹمنٹ کے اسٹیج پر موجود ہو تے تھے ۔اس دن فر مان صا حب نے جو کہا وہ جملہ مـیرے لئے بہت بڑی سر شا ری تھا " نسیم !! تمہا ری شا عری کا مستقبل بہت که تا بنا ک ہے " ( سر !! مـیں شر مندہ ہو ں ۔ یہ ذمہ داری اور سر شا ری نبھا نہیں سکی ) یو نیورسٹی کے دوسرے سال کے آ غا ز مـیں شا دی ہو گئی ۔ مجھے شا دی انتہا ئی احمقا نہ خیـال لگتا تھا سو بہت بار بھو ک ہڑتال کر کے ۔ روکے پیٹ کے شا دی کا چکر ختم کرا چکی تھی مگر مو ت اور شا دی بر حق ہیں اس لئے اس بار ایک نہیں چلی ۔دوسرا سا ل ایم اے کای طرح پوارا ہوا اور شا دی ہو گئی ۔ شا دی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ شریف عورتیں شا عری نہیں کرتیں ۔ مشا عروں مـیں نہیں جا تیں ، کتا بیں نہیں پڑھتیں وغیرہ وغیرہ ۔خیر یہ کو ئی ایسا زندگی اور مو ت کا مسئلہ بھی نہیں تھا سو سر کا دیـا خو د کو ایک طرف۔ ہمارے ہو نے کی ان کو بہت شکا یت تھی سو خو د سے ہٹ کے ٹھکا نہ بنا لیـا ہم نے کینڈا آ ئی تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے مـیاں ایک گوری کو پیـا رے ہو گئے ( جیسے لو گ اللہ کو پیـا رے ہوجا تے ہیں ) ۔ نہ جا نے ایسے مـیں جب بہت چھو ٹے چھوٹے چا ر بچے تھے ۔ دو دو نو کریـاں تھیں ۔ پڑھا ئی تھی ( ہما ری ڈگڑیـا ں یہاں آ کے ردی کا غذ جیسی ہو تی ہیں اگر یہاں کی کو ئی ڈگری نہ ہو مـیں نے ہو ٹل مـینج مـینٹ کا کور س یہا ں سے کیـا ) ایسے مـیں وہ جو مـیں تھی اپنے اندری کو نے مـیں پڑی جس کو مـیں کب کا بھو ل بھال چکی تھی وہ آ مو جودہو ئی ۔برتن دھو تے ، برف صا ف کر تے ، گھا س کا ٹتے ، روٹی پکا تے ، گا ڑی چلا تے مـیں نظمـیں لکھتی رہی ۔نہ صرف لکھتی رہی بلکہ بے پنا ہ چھپتی بھی رہی مختلف رسا ئل مـیں ادبی تنظیم بنا ڈا لی ، اور شا ید ہی کو ئی معروف شا عر ایسا ہو جو کنگسٹن نہ آ یـا ہو ۔ سر دا رجعفری کا لیکچر یـا د گار ہے مـیری زندگی کا کہ ایک ہفتہ سردار بھا ئی مـیرے گھر رہے تھے ۔جو ن بھا ئی سے تفصیلی ملا قا ت بھی تب ہی ہو ئی ۔بہت کچھ ہے لکھنے کو مگر پھر کبھی شا ید ان اوراق مـیں ہی کچھ اضا فہ کروں ۔ اسی زما نے مـیں شعرا سے ملنے کا اتفا ق ہو ا ۔ اور بہت کچھ سمجھا اور جا نا اپنی شعرا برا دری کے با رے مـیں ۔ اسکا تفصیلی ذکر بھی پھر کبھی ۔ اسی مصروفیت کے زما نے مـیں پہلا مجمو عہ " آ دھی گواہی " آیـا ۔ سمندر را ستہ دیگا " دوسرا مجمو عہ ہے ۔ آ دھی گو اہی کے بعد یہ یقین کہ سمندر را ستہ دیگا کا سبب یہ تھا کہ خوف کی چھو ٹی چھو ٹی چڑیـا مـیرے بچپن سے جو مجھ مـیں قید پڑی تھیں که تا کیدوں کی جنکے پروں مـیں گر ہیں لگی تھیں مـیں نے ان سب چڑیوں کے پر کھو ل دئے مـیں بہت سے شعرا کی بے پنا ہ خو بصورت شا عری پڑھ کے سو چتی ہوں ۔ مـیرے لکھنے کا اور پھر شا ئع کر نے کا کیـا کوئ جو از ہے ؟ " نہیں ہے " مـیرے اندر سے آ واز آ تی ہے ۔ پھر بھی لکھتی ہوں کہ اس کے علا وہ مجھے خود سے مخا طب ہونے کا طر یقہ نہیںآ که تا ۔زندہ رہنے کے لئے اپنے آ پ سے مکا لمہ ضروری ہے ۔مـیری شا عری مـیرا مجھ سے مکا لمہ ہے اورکچھ نہیں ۔ مجھے اپنی صرف ایک کتاب پسند ہے "شما لی امریکہ کے مقا مـی با شندوں کی شا عری" یہ تر جمہ نہیں ہے بلکہ بہت خو بصورت احسا سا ت کی تر جما نی ہے ۔ اور یہ تر جما نی بہت دل سے کی ہے مـیں نے ۔ اس پر ابھی اور کام کر رہی ہوں ۔ " جس تن لا گے " اشا عت کے مراحل مـیں ہے ۔ یہ کچھ کہا نیـاں ہیں ۔ اپنے بارے مـیں بات کرنا بیکا ر کی بات لگتی ہے مگر بعض محبتوں کا کہا ٹا لنا ممکن نہیں ہوتا ، یوں تو لکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے مگر جتنا ہے اتنی ہمت بھی ہو نی ضروری ہے ۔سو چنا پڑے گا شا ید لکھ ہی ڈا لوں ۔تحریر: پشواز غزل عنایت نسیم سید
نسیم سید کی شاعری بہت جلد ریختہ پر موجود ہوگی۔
www.rekhta.org
[Welcome to Rekhta Urdu Blog: November 2013 پشواز غزل عنایت]
نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 24 Jul 2018 18:27:00 +0000